وجود خدا
عقل منطق اور سائنس کی روشنی میں
_____________________________________________________________________
الحادی ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات میں سب سے
اہم سوال وجود خدا سے متعلق سوال ہے کیونکہ خدا کی ذات ہی تمام سوالوں کا بنیادی
جواب ہے اور خدا کی ذات ہی الحاد میں تمام جوابوں پر اٹھنے والا پہلا سوال ہے
الحاد یعنی خدا کی ذات سے سرے سے انکار کائنات کا خود بخود وجود میں آ جانا اور
ایک دن خود بخود ختم ہو جانا سب ابہام وجود خدا کے انکار سے شروع ہوتے ہیں کائنات
کیسے وجود میں آئی سائنس کے مطابق بگ بینگ اسکا جواب ہے .
آج سے کڑوڑوں سال قبل ایک حادثہ رونما ہوا ایک
ستارہ گردش کرتا ہوا سورج کے قریب آ دھمکا اسکی کشس اتنی زیادہ تھی کہ سورج پر
مادے کی ایک لہر ناقابل تصور حد تک بلند ہو گئ جوں جوں یہ ستارہ قریب آتا گیا مادے
کی لہر بڑی ہوتی گئ پھر یہ ستارہ دور ہٹنے لگا اسکی کشش سے یہ لہر ٹوٹ کر ٹکروں
میں بٹ گئی ان ٹکروں میں ہماری زمین بھی شامل ہے وغیرہ وغیرہ ہوا اور پھر ایک
جرثومے سے زندگی کی ابتدا ہوئی انسان ارتقا کی مختلف منازل طے کرتا وجود میں آیا ۔
یہ سائنس کے مفروضے ہیں جس کی بنیاد پر الحاد کا زہر اپنی پوری ہولناکی سے پھیلنا شروع
ہوا ملحدین کا سوال کہ اگر خدا ہے تو کہاں ہے دکھائی کیوں نہیں دیتا یا اگر سب کچھ
تخلیق کیا گیا ہے تو پھر خدا کو کس نے بنایا ؟! اسکے جوابات کو سائنس کی ہی روشنی
میں تلاش کرنے کے لیے
خدائی سرگوشیوں سے لیے گئے اس مضمون کی جانب چلتے ہیں
خدائی سرگوشیوں سے لیے گئے اس مضمون کی جانب چلتے ہیں
"شعور کے خوگرانسان کے لیے خدا کا وجود
ہمیشہ ایک معمّہ ہی رہا ہے اور ہر دور میں علم، منطق اور عقل کی روشنی میں خدا کو
جاننے کی کاوشیں جاری رہی ہیں۔ آئیے! اسی عقل، منطق، علم اور سائنس کی دریافتوں
کی روشنی میں خدا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن خدا کے وجود کا پیرایہ سمجھنے سے
پہلے وجود کی ماہیّت سمجھنا ضروری ہے کہ وجودیت خود کیا ہے!
وجود کا قفس : Cage of Existence
انسان اور اس کی عقل و شعور کا موجود ہونا بذات خود ایک عجوبہ ہے۔ انسان جب کائنات کی تخلیق کے حوالے سے خدا کے وجود پر غور کرتا ہے تو اس کی عقل اس لیے معطّل ہوجاتی ہے کہ وہ وجودیت کے پیرائے کو اپنے شعور میں ایک فطری اور سختی سے پیوست تاثر کا پرتو ہی سمجھنے پر مجبور ہے۔ انسان طبعی وجودیت میں قید ہے اور اپنے محدود شعور کے باوصف وجود کے حوالے سے اسی طبعی وجودیت کو حرف آخر سمجھتا ہے۔ یہی ایسی بھول بھلیّاں ہے جس میں انسان صدیوں سے گھوم رہا ہے اور نکل نہیں پا رہا۔ جدید علوم اور نئی دریافتوں نے اس مخمصے میں اضافہ کیا ہے۔ حقیقت آشنائی کے لیے اب کسی اچھوتی سوچ کی ضرورت ہے جو اس طبعی وجودیت کے قفس کے قفل کو توڑدے جس میں انسانی تخیّل مقیّد ہے اور ایک عقلی اور شفّاف نقطۂ نظر سے کائنات، وجودیت اور خدا کو جانے۔ اس کے لیے سائنسی طریقہ کار اپنانا ہوگا کہ مفروضات hypothesis کا سہارا لے کر علم اورعقل کی کسوٹی پر ان کو پرکھاجائے۔ آئیں ہم غور کرتے ہیں کہ کیا وجودیت اور زندگی خود بھی مخلوق ہیں؟
زندگی کی ساخت: Fabric of Life
وجود زندگی سے ہے اور زندگی کی ساخت ایٹم اور خلیے سے ہے۔ایک نکتہ یہ بھی مدّنظر رہے کہ ہر عنصر کی اکائی ( ایٹم) ایک پس پردہ فطرت اور جبلّت کی خوگر ہوتی ہے۔آکسیجن اگر آگ جلاتی ہے تو کاربن اسے بجھاتی ہے۔ یہ ان کی جبلّت ہے۔ سائنس اسے خاصیّت یا property کہتی ہے۔ کسی بھی عنصر کی کارکردگی اس کی جبلّت کے طابع اور متعیّن حدود میں ہی ہوگی۔ منطقی طور پر کسی بھی زندگی کی حواسی اور شعوری صلاحیّت اس کو پروان چڑھانے والے بنیادی عوامل کی جبلّت کے رنگ میں ہی عیاں ہوگی۔ اس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ اگر زندگی فوٹون سے ابھرتی ہے تو کیونکہ فوٹون غیرمرئی ہے اور اس کی جبلّت بے قراری ہے یعنی یہ ایک سیماب صفت اکائی ہے جو بہت رفتار سے چلتی ہے تو اس سے متعلق زندگی بھی غیرمرئی اور برق سے زیادہ تیز رفتار ہوسکتی ہے۔ اسی طرح عناصر اور کائناتی قوتوں کی اکائیاں بھی اپنی جدا خاصیّتوں کے ساتھ موجود ہیں۔" (خدائی سرگوشیاں )
یہاں میں سہولت کے لیے فوٹوں کی وضاحت کرتی چلوں
فوٹون ایک بنیادی ذرہ (elementary particle) ہے جس سے روشنی اور دوسری تمام برقی
مقناطیسی شعاعیں (electromagnetic waves)
بنتی ہیں۔ کسی بھی توانائی کے فوٹون کی رفتار خلا میں روشنی کی رفتار کے برابر
ہوتی ہے جو خلاء میں 299,792,458 میٹر فی سیکنڈ ہے۔ اگر کسی فوٹون کی توانائی
زیادہ ہوتی ہے تو اسکی فریکوئینسی (frequency)
بھی زیادہ ہوتی ہے جیسا کہ ایکس رے کے فوٹون۔ جبکہ کم توانائی کے فوٹون کم
فریکوئینسی کے حامل ہوتے ہیں۔ سارے فوٹونز کی رفتار بالکل برابر ہوتی ہے جو خلاء
میں تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے۔ اسے عام طور پر c
سے ظاہر کیا جاتا ہےفوٹون کی خلا میں رفتار نہ بڑھائی جا سکتی ہے اور نہ کم کی جا
سکتی ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
#عفیفہ_شمسی
#عفیفہ_شمسی
No comments:
Post a Comment