Monday, September 19, 2016

1.wajud khuda : aqal,logic aur science ki roshni me





گزشتہ سے پوستہ 
___________________________________________________________________
خلوی زندگی:Cellular Life

سائنسی دریافتیں بتاتی ہیں کہ وجود میں آنے کے بعد کائنات رفتہ رفتہ ٹھنڈی ہونی شروع ہوئی، پھر ایک وقت میں زمین پر حالات ایسے سازگار ہوئے کہ پانی میں ایٹم سے بنے خلیے سے زندگی پھوٹ پڑی جس میں طویل ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے بقول سائنسداں انسان اپنے شعور کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔
سوال یہ ہے کہ زندگی کیا ہے؟
زندگی ایک فعّال اور بے چین معمّہ یا “چیز” ہے جو اپنے آپ کو خاص ماحول میں عیاں کرنے کی جبلّت رکھتی ہے۔ زندگی ایک آزاد اور کھلا راز ہے جو ہر طرح کے ماحول میں ابھرنے کی صلاحیّت رکھتا ہے۔ یہ ایک غیر مرئی سچّائی اور وقوعہ Phenomenon ہے جو موجود ہے۔
سائنس کے مطابق کائنات ایٹم سے بنی اور زندگی خَلیے cell میں شعور کا نام ہے۔
تو پھر شعور کیا ہے؟
شعور احساس زندگی ہے مگر سائنس کے مطابق شعور زندگی کی پہیلی کا ایک حصہ اور غیر حل شدہ عُقدہ ہے۔
اب سوال اٹھتے ہیں کہ:
کیا حیات صرف خلیات ہی میں محصور ہے؟
کیا حیات صرف اور صرف پانی سے ہی ابھر سکتی ہے؟

اجنبی حرارتی اورمقناطیسی زندگی: Alien Thermal & Magnetic Life

اب ایک دوسرا رخ بھی دیکھے۔ سائنس کے نظریے کے مطابق کائنات بگ بینگ سے وجود میں آئی۔ اس نظریے کا سادہ سا تجزیہ کریں تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس ابتدائی وقت میں نہ صرف توانائی اور قوّتیں موجود تھیں بلکہ ہر طرح کے مادّے، اجرام فلکی اور ہر طرح کی حیات اور فطری قوانین بھی آپس میں ضم تھے۔ شروع میں ہر طرف آگ تھی جو ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی اورجوں جوں کائنات پھیلی تو رفتہ رفتہ تمام چیزیں عیاں ہوتی گئیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس دوران زندگی کی سچّائی بھی ایک غیرمرئی صورت میں موجود رہی ہوگی اور مختلف ادوار میں قدرتاً مختلف صورتوں میں عیاں ہوئی ہوگی۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ جس طرح عناصر خلیات بناتے ہیں اسی طرح کچھ مخصوص پارٹیکل یا قوّتیں مل کر ایسی چیز بناتے ہوں جس میں ایک بالکل جدا پیرائے کی حیات اور شعور ابھرتے یا ظاہر ہوتے ہوں! پانی سے پہلے کیا زندگی توانائی، قوّت اور حرارت کے پیرائے جیسے روشنی یا ثقل سے پیدا ہوکر کسی اجنبی شعور کے ساتھ ارتقاء پذیر نہ ہوئی ہوگی؟ ہم کس منطق یا علم کے تحت ایسی حیات کو مسترد کریں گے جو شاید کائنات کے کسی گوشے میں موجود بھی ہو۔

سوال یہ ہے کہ: ایسا کیوں نہیں ہوا ہوگا؟

کیونکہ زندگی موجودہ دور میں بھی زمین پر آتش فشانی ماحول میں ایک اچھوتے پیرائے میں خود کو ظاہر کر رہی ہے لہذٰا ثابت ہوتا ہے کہ زندگی میں خود کو آتشی ماحول میں عیاں کرنے کی قوّت ہمیشہ سے موجود ہے۔ ہماری زمین پر ہی سمندر کی گہرائی میں آتش فشانی وینٹ میں حالیہ دریافت شدہ ٹیوب وارم جو سورج کی روشنی کے بغیر زندہ ہیں اور توانائی حاصل کرنے کے لیے کیمیکل پر انحصار کرتے ہیں، ایک عجوبہ ہیں۔ یہ شعاع ِ ترکیبی photosynthesis کے بجائے کیمیا ترکیبی Chemosynthesis سے توانائی حاصل کرتے ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ گو کہ دونوں طریقوں میں کاربن ڈائی آکسائڈ اور پانی استعمال ہوتے ہیں لیکن کیمیا ترکیبی میں آکسیجن کے بجائے سلفر خارج ہوتی ہے۔
Instead of photosynthesis, vent ecosystems derive their energy from chemicals in a process called “chemosynthesis.” Both methods involve an energy source (1), carbon dioxide (2), and water to produce sugars (3). Photosynthesis gives off oxygen gas as a byproduct, while chemosynthesis produces sulfur.
http://science.nasa.gov/scien…/science-at-nasa/…/ast13apr_1/

اس سے ہمارے اس نظریہ کو تقویت ملتی ہے کہ کائنات میں حرارت اور روشنی سے مختلف حیات کاعیاں ہونا بعید از قیاس نہیں کیونکہ اِس وقت زمین پر معتدل حالات میں بھی مذکورہ بالا زندگی کاایک نئی طرز میں ظاہر ہونا زندگی کی اپنی طاقتور اور ہمہ جہت جبلّت اور وصف کا مظہر ہے۔ یعنی زندگی کا وقوعہ of Life Phenomenon مختلف ماحولیات میں اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی صلاحیّت رکھتا ہے۔ گویا یہ کثیر الجہت dimensional Multi ہے۔ ایک منطقی بات یہ سامنے آتی ہے کہ اگر زندگی کی جہتیں ایک سے زیادہ ہوں گی تو وجود کی ماہیّت بھی مختلف ہوسکتی ہے کیونکہ ان کی آفرینش کے جبلّی پیرائے غیرطبعی اور عام انسانی حواس سے ماورا ہوں گے لہذا اس بنیاد پر پیدا ہونے والی زندگی بھی اپنے وجود کے حوالے سے انسان کے لیے نہ صرف غیرمرئی ہوگی بلکہ انسانی حواس سے ماورا ہوگی جیسے ثقل، مقناطیس، روشنی سے منسلک زندگی نامعلوم پیرائیوں میں موجود ہوسکتی ہے۔ وہ اپنے اپنے وجودی پیرائے میں زندہ ہوں گی اور اپنے اپنے شعوری اور عقلی دائرے میں علمی ارتقاء کی طرف گامزن بھی ہو سکتی ہیں۔ یعنی انسان ہی اپنے علم کے تئیں کائناتی زندگی کی ابتدا کو پانی تک محدود سمجھتا رہا ہے جبکہ حقیقت اس کے خلاف بھی ہوسکتی ہے۔

خدائی سر گوشیاں

مضمون کو دو سے تین بار پڑھیے ایڈٹنگ بھی نہیں کی اس بار تسلسل رکھنے اور سمجھنے کے لیے پچھلی قسط ساتھ پڑھیے
#عفیفہ_شمسی

2.wajud khuda : aqal, logic aur science ki roshni me

وجود خدا 


عقل منطق اور سائنس کی روشنی میں



_____________________________________________________________________
الحادی ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات میں سب سے اہم سوال وجود خدا سے متعلق سوال ہے کیونکہ خدا کی ذات ہی تمام سوالوں کا بنیادی جواب ہے اور خدا کی ذات ہی الحاد میں تمام جوابوں پر اٹھنے والا پہلا سوال ہے الحاد یعنی خدا کی ذات سے سرے سے انکار کائنات کا خود بخود وجود میں آ جانا اور ایک دن خود بخود ختم ہو جانا سب ابہام وجود خدا کے انکار سے شروع ہوتے ہیں کائنات کیسے وجود میں آئی سائنس کے مطابق بگ بینگ اسکا جواب ہے .
آج سے کڑوڑوں سال قبل ایک حادثہ رونما ہوا ایک ستارہ گردش کرتا ہوا سورج کے قریب آ دھمکا اسکی کشس اتنی زیادہ تھی کہ سورج پر مادے کی ایک لہر ناقابل تصور حد تک بلند ہو گئ جوں جوں یہ ستارہ قریب آتا گیا مادے کی لہر بڑی ہوتی گئ پھر یہ ستارہ دور ہٹنے لگا اسکی کشش سے یہ لہر ٹوٹ کر ٹکروں میں بٹ گئی ان ٹکروں میں ہماری زمین بھی شامل ہے وغیرہ وغیرہ ہوا اور پھر ایک جرثومے سے زندگی کی ابتدا ہوئی انسان ارتقا کی مختلف منازل طے کرتا وجود میں آیا ۔ یہ سائنس کے مفروضے ہیں جس کی بنیاد پر الحاد کا زہر اپنی پوری ہولناکی سے پھیلنا شروع ہوا ملحدین کا سوال کہ اگر خدا ہے تو کہاں ہے دکھائی کیوں نہیں دیتا یا اگر سب کچھ تخلیق کیا گیا ہے تو پھر خدا کو کس نے بنایا ؟! اسکے جوابات کو سائنس کی ہی روشنی میں تلاش کرنے کے لیے
خدائی سرگوشیوں سے لیے گئے اس مضمون کی جانب چلتے ہیں
"شعور کے خوگرانسان کے لیے خدا کا وجود ہمیشہ ایک معمّہ ہی رہا ہے اور ہر دور میں علم، منطق اور عقل کی روشنی میں خدا کو جاننے کی کاوشیں جاری رہی ہیں۔ آئیے! اسی عقل، منطق، علم اور سائنس کی دریافتوں کی روشنی میں خدا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن خدا کے وجود کا پیرایہ سمجھنے سے پہلے وجود کی ماہیّت سمجھنا ضروری ہے کہ وجودیت خود کیا ہے!

وجود کا قفس : Cage of Existence

انسان اور اس کی عقل و شعور کا موجود ہونا بذات خود ایک عجوبہ ہے۔ انسان جب کائنات کی تخلیق کے حوالے سے خدا کے وجود پر غور کرتا ہے تو اس کی عقل اس لیے معطّل ہوجاتی ہے کہ وہ وجودیت کے پیرائے کو اپنے شعور میں ایک فطری اور سختی سے پیوست تاثر کا پرتو ہی سمجھنے پر مجبور ہے۔ انسان طبعی وجودیت میں قید ہے اور اپنے محدود شعور کے باوصف وجود کے حوالے سے اسی طبعی وجودیت کو حرف آخر سمجھتا ہے۔ یہی ایسی بھول بھلیّاں ہے جس میں انسان صدیوں سے گھوم رہا ہے اور نکل نہیں پا رہا۔ جدید علوم اور نئی دریافتوں نے اس مخمصے میں اضافہ کیا ہے۔ حقیقت آشنائی کے لیے اب کسی اچھوتی سوچ کی ضرورت ہے جو اس طبعی وجودیت کے قفس کے قفل کو توڑدے جس میں انسانی تخیّل مقیّد ہے اور ایک عقلی اور شفّاف نقطۂ نظر سے کائنات، وجودیت اور خدا کو جانے۔ اس کے لیے سائنسی طریقہ کار اپنانا ہوگا کہ مفروضات
hypothesis کا سہارا لے کر علم اورعقل کی کسوٹی پر ان کو پرکھاجائے۔ آئیں ہم غور کرتے ہیں کہ کیا وجودیت اور زندگی خود بھی مخلوق ہیں؟

زندگی کی ساخت: Fabric of Life

وجود زندگی سے ہے اور زندگی کی ساخت ایٹم اور خلیے سے ہے۔ایک نکتہ یہ بھی مدّنظر رہے کہ ہر عنصر کی اکائی ( ایٹم) ایک پس پردہ فطرت اور جبلّت کی خوگر ہوتی ہے۔آکسیجن اگر آگ جلاتی ہے تو کاربن اسے بجھاتی ہے۔ یہ ان کی جبلّت ہے۔ سائنس اسے خاصیّت یا
property کہتی ہے۔ کسی بھی عنصر کی کارکردگی اس کی جبلّت کے طابع اور متعیّن حدود میں ہی ہوگی۔ منطقی طور پر کسی بھی زندگی کی حواسی اور شعوری صلاحیّت اس کو پروان چڑھانے والے بنیادی عوامل کی جبلّت کے رنگ میں ہی عیاں ہوگی۔ اس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ اگر زندگی فوٹون سے ابھرتی ہے تو کیونکہ فوٹون غیرمرئی ہے اور اس کی جبلّت بے قراری ہے یعنی یہ ایک سیماب صفت اکائی ہے جو بہت رفتار سے چلتی ہے تو اس سے متعلق زندگی بھی غیرمرئی اور برق سے زیادہ تیز رفتار ہوسکتی ہے۔ اسی طرح عناصر اور کائناتی قوتوں کی اکائیاں بھی اپنی جدا خاصیّتوں کے ساتھ موجود ہیں۔" (خدائی سرگوشیاں )

یہاں میں سہولت کے لیے فوٹوں کی وضاحت کرتی چلوں

فوٹون ایک بنیادی ذرہ (elementary particle) ہے جس سے روشنی اور دوسری تمام برقی مقناطیسی شعاعیں (electromagnetic waves) بنتی ہیں۔ کسی بھی توانائی کے فوٹون کی رفتار خلا میں روشنی کی رفتار کے برابر ہوتی ہے جو خلاء میں 299,792,458 میٹر فی سیکنڈ ہے۔ اگر کسی فوٹون کی توانائی زیادہ ہوتی ہے تو اسکی فریکوئینسی (frequency) بھی زیادہ ہوتی ہے جیسا کہ ایکس رے کے فوٹون۔ جبکہ کم توانائی کے فوٹون کم فریکوئینسی کے حامل ہوتے ہیں۔ سارے فوٹونز کی رفتار بالکل برابر ہوتی ہے جو خلاء میں تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے۔ اسے عام طور پر c سے ظاہر کیا جاتا ہےفوٹون کی خلا میں رفتار نہ بڑھائی جا سکتی ہے اور نہ کم کی جا سکتی ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
#عفیفہ_شمسی  

3. wajud khuda : aqal,logic aur science ki roshni me


گزشتہ سے پیوستہ
_________________________________________________________________
مشترک اور مختلف جبلّت    : Common & Diverse Intrinsic
ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ زندگی کے لیے مانوس ماحول ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے پیدا ہوا تو اور دوسرے عناصر کے ملاپ سے کیوں نہ پیدا ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ دو عناصر ایک ایسی چیز بناتے ہیں جس کی جبلّت سے زندگی کی مختلف جہتوں میں سے کوئی ایک جہت مانوس یا ہم آہنگ Compatable ہے جس کی وجہ سے حیوانی زندگی پانی میں نمودار ہوئی۔ ہم اس لیے اس زندگی کو بآسانی پہچانتے ہیں کہ زندگی اور ہمارے ذہن و دماغ ایک ہی مشترک خلوی منبع cellular origin سے ابھری ہیں اور یہ فطری اور جبلّی طور پر آپس میں ہم آہنگ ہیں۔ اسی طرح جب تخلیقی جبلّت مختلف ہوگی تو کسی غیر عنصر یا توانائی وحرارت سے متعلّق زندگی کا ادراک جبلّی ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے ہمارے ذہن اور حواس سے ماوراء ہوگا اور وہ ہمارے لیے معدوم اور “بے وجود ” ہی رہے گی۔ اس کا منطقی اور اصولی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر نامعلوم پیرائے کی زندگی ہمارے لیے طبعی طور پر معدوم رہے گی۔

شعورکی قسمیں    : Forms of Conciousness
اسی کرۂ ارض پر خلیات پر مبنی حیات جانور، پرند، حشرات الارض، درختوں اور پھولوں کی شکل میں بھی موجود ہے جو شعور کے حامل ہیں اور جوڑے pairs بھی رکھتے ہیں، گویا خلوی حیات کے کئی متوازی نظام ہمارے سامنے رواں دواں ہیں مگر اس کے باوجود ابھی انسان ان کے شعور اور آپس کے روابط کی حقیقت نہیں جان پایا جس سے انسان کی کم علمی بھی عیاں ہے۔ ثابت یہی ہوتا ہے کہ جب خلوی حیات اور اس سے منسلک شعور کی لا تعداد قسمیں ہمارے سامنے ہیں تو غیر خلوی حیات اور اس سے منسلک شعور اور وجود بعید از قیاس کیسے ہو سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے انسان کیوں کسی اجنبی پیرائے کی حیات کی تصدیق نہیں کر پاتا؟

وجود کا دائمی ذہنی ادراک   : Constant Mental Perception of Existense  
اگر زندگی کسی توانائی مثلاً فوٹون Photon سے آشکارا یا نمودار ہو تو کیا ہم یہ جان سکتے ہیں کہ:
اس کے شعور کے پیرامیٹر کیا ہوں گے؟
اس کے حواس کس طرز کے ہوں گے؟
اس کی قوتوں کے پیرائے کیا ہوں گے؟
اُس طرزِحیات کے ارتقاء کے مراحل کیسے ہوں گے اور اس کی عقل اگر ہوئی تواس کی ماہیّت کیا ہوگی؟
یقینا ہم یہ نہیں جان سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وجود کے حوالے سے ہمارے تصوّر اور تخیّل کے پیرائے ہماری اساس یعنی خلوی حیات cellular life سے نتھی یا منسلک ہیں، ہمارے ذہن میں وجود کا متعیّن ادراک فطری طور پر طبعی ہے۔ ہم کبھی بھی کسی اجنبی وجودیت یا اجنبی زندگی کے حقیقی پیرائے Alien Life Parameters کو اپنے تخیّل کے فطری خلوی پیرائے Cellular Thought Parameters Natural میں رہتے ہوئے نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ یہ آپس میں مانوس اور ہم آہنگ compatible نہیں ہیں۔ اسی اساسی خلوی جبلّت کے پرتو ہمارے ذہن میں وجودیت ایک خاص طبعی پیرائے میں اس سختی سے ثبت ہے کہ یہ ادراک perception اب ایک جنّیاتی ورثے Genetic Heritage کی طرح ہر خاص و عام کا مستقل ذہنی وصف بن چکا ہے۔ تمام انسان بشمول اسکالر اور سائنسداں اپنے اطراف کے پُراثر طبعی ماحول کے پیدائشی اور مستقل اسیر ہوتے ہیں اور وجود اور عمل سے منسلک خیالات اور احساسات بھی خلوی شعور کے زیر اثر ایک خاص طبعی تاثر کے آفاقی دائرے میں گردش کرتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے لیے کسی اجنبی پیرائے میں زندگی کا وجود ذہناً ناقابل قبول ہو جاتا ہے۔ اپنے شعور اور عقل کے با وصف ہم یہ نتیجہ تو اخذ کرسکتے ہیں کہ زندگی مختلف نہج Dimensions میں ظاہر ہوسکتی ہے یا ہوئی ہے لیکن جبلّی ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے کیونکہ ہم اپنے تجربات، عقل اور علم کی روشنی میں کسی غیر خلوی حیات کی نمو پذیری کی تصدیق نہیں کر پاتے، اسی لیے ہم اس کو اپنی عقل کے پرتو مسترد کرتے رہے ہیں۔
خلوی شعور کے حوالے سے یہ واضح رہے کہ آگ سے ابھرنے والی زندگی اور اس کے شعوری پیرائے آتشی ہی ہوں گے، اسی طرح برقی جبلّت سے آشکارا یا نموپذیر زندگی کا شعور بھی برقی شعور ہی کہلائےگا کیونکہ اس کی اساس برقی ہوگی جبکہ روشنی کے پیرامیٹر کی زندگی کا شعور شُعاعی ہوگا۔ ایسی کسی حیات یا وجود کی طبعی یا سائنسی تصدیق فی الوقت ممکن نہیں بلکہ ان کی قبولیت ایمانیات اور عقائد کے زیر اثر ہی ہو سکتی ہے۔

وجودیت کے پیرائے    : Parameters of Existence
اس بحث سے صرف یہ اخذ کرنا تھا کہ ہم جسے وجود کہتے ہیں، وہ ایک مخصوص احساس یا تاثر ہے جو ہمیں کسی ایسی ہستی یا چیز کا ادراک دیتا ہے جس کا تعلّق کسی یکساں، مختلف یا منفردحیات سے ہوسکتا ہے۔ یہ بھی واضح ہوا کہ کائنات میں موجود مختلف عناصر اور توانائیوں میں حیات کے ابھرنے کے مواقع منطقی بنیاد پر دور از کار نہیں۔ گویا وجود مختلف دائروں میں مختلف جہتوں میں جلوہ گر ہو سکتا ہے۔ اس طرح وجود کے ایک دائرے میں رہائش پذیر حیات دوسرے دائرے کی حیات سے جدا خصوصیت کی حامل ہوگی۔ ان کا آپس میں ربط ان کے بنیادی اجزاء کی باہمی ہم آہنگی پر منحصر ہوگا۔
ہم نے ابھی یہ سمجھا کہ موجود ہونے کے بہت سے پیرائے یا رنگ ہو سکتے ہیں اور یہ مختلف دائروں میں عیاں ہو سکتے ہیں۔ کائنات اور خود انسانی تمدّن میں جاری نظم ایک آفاقی حقیقت ہے، اس کے بموجب یہ قیاس کرنا منطقی ہوگا کہ وجود یا موجود ہونے کے کائناتی نظام پر حاوی کوئی نظام ہوسکتا ہے جو وجودیت کو مختلف پیرائے اور رنگ دینے کی صلاحیّت رکھتا ہو ورنہ مختلف طبعئی حیات کا ہونا غیر حقیقی ہو جائے گا۔ اب اگر ایسا ہے تو یقیناً وہ حیات یانظم یا قوّت، جس نے وجود کے دائرے تخلیق کیے، وہ یقیناً تمام موجود کائناتی حیات سے انتہائی جدا اور برتر ہوگی۔ اسی نے انسان کو ایک ذہنی قید خانے محصور کر رکھا ہے۔

جب ہم ایک وائرلیس ریموٹ کے ذریعے بہت دور سے کسی مشین کو کنٹرول کرتے ہیں تو بظاہر کوئی واسطہ نظر نہیں آتا لیکن درحقیقت وہ مشین ایک نہ نظر آنے والے نظام سے منسلک ہوتی ہے۔ ایک لا علم کے لیے یہ ایک عجوبہ یا Baffle ہوگا جبکہ جاننے والوں کے لیے یہ ایک مربوط نظام ہے۔ بالکل اسی طرح انسان اطراف میں مخفی نظام ہائے کائنات کی ہیئت سمجھنے میں مشغول تو ہے لیکن مکمّل نظم System کو ابھی تک سمجھنے سے قاصر اور حقیقی کائناتی نظام سے بہت حد تک لاعلم ایک مخلوق ہے۔ مختصراً، اگر کائنات ایک تخلیق ہے تو اس میں موجود زندگی بھی ایک تخلیق ہی ہے اور انسان کے شعور کے بموجب وجودیت بھی ایک غیرمرئی مخلوق ہوئی الّا یہ کہ جدید علوم عملی طور پر Practically یہ ثابت کردیں کہ عدم سے وجود یا نیست سے ہست things from nothing خود بخود کیسے ظاہر ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ اچانک کائناتی تخلیق spontaneous creation میں زندگی اور شعور کا عیاں ہونا بھی ایک ناقابل تشریح عجوبہ ہی ہے۔
)خدائی سرگوشیاں  (

Wednesday, August 31, 2016

ALLAH KAUN HAI ? ALLAH KI PAHCHAN

" کیا اللہ کی ہستی میں کوئی شک ہے ؟ "
.
آج لوگوں کا الحاد کے دلدل میں گرنے کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کو پہچانا ہی نہیں، انہوں نے جانا ہی نہیں کہ اللہ کون ہے،
اگر اللہ کو جان جاتے تو کبھی الحاد کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں مارے مارے نہ پھرتے،
آئیں آج میں آپ کو اللہ کی پہچان کرواتا ہوں،

اللہ کون ہے؟
.
جس نے انسان کو تخلیق کیا، کیسے تخلیق کیا؟

.
خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ اَنۡزَلَ لَکُمۡ مِّنَ الۡاَنۡعَامِ ثَمٰنِیَۃَ اَزۡوَاجٍ ؕ یَخۡلُقُکُمۡ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ خَلۡقًا مِّنۡۢ بَعۡدِ خَلۡقٍ فِیۡ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ ؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ لَہُ الۡمُلۡکُ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ فَاَنّٰی تُصۡرَفُوۡنَ
الزمر، 6
اسی نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا اور اسی نے تمہارے لئے چار پایوں میں سے آٹھ جوڑے بنائے۔ وہی تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ میں (پہلے) ایک طرح پھر دوسری طرح تین اندھیروں میں بناتا ہے۔ یہی خدا تمہارا پروردگار ہے اسی کی بادشاہی ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں پھر تم کہاں پھرے جاتے ہو؟
.
یہاں ذرا غور کریں اللہ پاک نے کیا فرمایا ہے :
خَلۡقٍ فِیۡ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ
"تین اندھیروں کے اندر تخلیق کیا انسان کو"
اندھیرے میں کوئی چیز بنائیں آپ تو بلکل درست نہیں بن سکتی،
یعنی ایک بنانے والا گھنے اندھیرے میں کوئی چیز بلکل صحیح نہیں بنا سکتا،
تو ایک جیتا جاگتا انسان ان اندھیروں میں کیسے بنا بنانے والے کے خود بخود بن سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! یہ تخلیق ایک عظیم ہستی کی کاریگری ہے،
پھر بطن مادر کے تین اندھیروں کے اندر کیسا بنایا انسان کو، یہ بھی دیکھیں
. 
لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫
التین، 4

کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ہے
ساری مخلوق سے خوبصورت بنا دیا انسان، بطن مادر کے تین اندھیروں کے اندر تخلیق کیا، کس نے؟ اللہ نے،

اَمَّنۡ یَّبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ وَ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ
النمل،
64
(اب بتاؤ) بھلا کون خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا۔ پھر اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے اور (کون) تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے (یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں) کہہ دو کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو
.
اسی طرح انسان سمندر اور دریاؤں میں سفر کرتا ہے، رات کی تاریکیوں میں گھٹا ٹوپ اندھیروں میں، کوئی سڑکیں بھی نہیں ہوتی، کون کنارے پر بحفاظت پہنچا دیتا ہے،
تو پھر بتاؤ....
. 

اَمَّنۡ یَّہۡدِیۡکُمۡ فِیۡ ظُلُمٰتِ الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ وَ مَنۡ یُّرۡسِلُ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ
النمل،
63
بھلا کون تم کو جنگل اور دریا کے اندھیروں میں رستہ بناتا ہے اور (کون) ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے خوشخبری بناکر بھیجتا ہے (یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے) تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ (ہرگز نہیں)۔
.
اللہ وہ ہے، جو رات کی تاریکی میں کروٹ بدلتے ہوئے مریض کی پکار کو سنتا ہے اور شفاء دیتا ہے، ذرا غور تو کر میرے دوست. ...
. 

اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ وَ یَجۡعَلُکُمۡ خُلَفَآءَ الۡاَرۡضِ ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ
النمل،
62
بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے۔ جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو،
.
اپنے ہاتھ سے بیج کو مٹی میں ملا کر مٹی کر دیتے ہو، اللہ وہ ہے، جو اس مٹی کو پودے کی صورت عطا کر دیتا ہے،کبھی عقل سے کام لے میرے دوست. ...
. 

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَوۡتِہَا لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ؕ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ
العنكبوت،
63
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمان سے پانی کس نے نازل فرمایا پھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد (کس نے) زندہ کیا تو کہہ دیں گے کہ اللہ نے۔ کہہ دو کہ خدا کا شکر ہے۔ لیکن ان میں اکثر نہیں سمجھتے،
.
آ میں تجھے سمجھاؤں اللہ کون ہے، رات کو چھپ کر تاریکی میں اپنے اللہ کو پکارنے والے بوڑھے بانجھ بیوی والے کو بچہ عطا کر دیتا ہے، وہ اللہ ہے
.

ذِکۡرُ رَحۡمَتِ رَبِّکَ عَبۡدَہٗ زَکَرِیَّا

(یہ) تمہارے پروردگار کی مہربانی کا بیان (ہے 
جو اس نے) اپنے بندے زکریا پر (کی تھی)
. 

اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآءً خ

Sunday, August 28, 2016

WAJUD BAARI TAALA ( THE EXISTENCE OF ALMIGHTY GOD ALLAH)




زندگی اور کائنات کی سب سے اہم حقیقت اللہ تعالیٰ کا وجود ہے۔ اس کے ہونے یا نہ ہونے سے ہر چیز کے معنیٰ بدل جاتے ہیں ۔ لیکن 
اسلام میں اہمیت اللہ کے ہونے یا نہ ہونے کو حاصل نہیں بلکہ اللہ کی الوہیت کو حاصل ہے ۔ تاہم دین بیزاری اور الحاد کے اس دور میں کچھ ایسے کورچشم بھی ہیں جو آفاق وانفس کے بے شمار دلائل سے آنکھیں موندکروجود باری تعالیٰ کا انکار کربیٹھتے ہیں ایسے لوگوں کو ہم کیسے مطمئن کرسکتے ہیں ؟
اسی مقصد کے تحت یہ مضمون پیش خدمت ہے یہ زمین ،یہ آسمان، یہ سورج، یہ چاند، یہ ستارے ، یہ کہکشاں ،یہ ندی، یہ پہاڑ،یہ رات اور یہ دن،بلکہ کائنات کا ہر ایک ذرہ اللہ کے وجود پر دلیل ہے۔
آب دوزکشتی
امام ابو حنیفہؒ کی خدمت میں کچھ منکرین خدا نے اس مسئلہ پر بحث کرنا چاہی تو آپ نے نہایت حکیمانہ انداز میں ان کی تشفی فرمائی۔ آپ نے فرمایا مجھے ذرا چھوڑو کیونکہ میں ایک بات میں فکر مند ہوں جس کا مجھ سے امتحان لیا گیاہے مجھ سے لوگوں نے بیان کیا ہے کہ دریا میں سامان بھری ہوئی ایک بوجھل کشتی ہے اس میں طرح
طرح کے تجارتی سامان ہیں کوئی اس کشتی کی نگرانی نہیں کرتاہے اور نہ اس کو چلانے والا کوئی ہے اس کے باوجود کشتی اپنے آپ آتی جاتی اور چلتی پھرتی ہے بڑی بڑی موجوں کو چیر پھاڑکر نکل جاتی ہے کسی ناخدا کے بغیر اپنے آپ چلتی پھرتی رہتی ہے لوگوں نے کہا یہ بات کوئی عقل والا نہیں کہے گا تب امام صاحب نے فرمایا افسوس ہے تمہاری عقلوں پرکہ ایک کشتی کے متعلق تمہارا گمان ایساہے تو یہ موجودات جن میں آسمان و زمین اور دوسری مستحکم اشیاءہیں کیا ان کا کوئی صانع نہیں ہے؟ یہ سن کر قوم لا جواب ہوگئی حق کی طرف رجوع کیا اور امام صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔
زبانوں کا اختلاف
امام مالکؒ سے خلیفہ ہارون الرشید نے پوچھا کہ اللہ کے وجود پر کیا دلیل ہے؟ آپ نے فرمایا: زبانوں کا مختلف ہونا، نغموں کا الگ ہونا اور آوازوں کا جدا ہونا ثابت کرتا ہے کہ اللہ ہے۔
توت کے پتے
امام شافعیؒ سے کسی نے وجود باری تعالی پر دلیل مانگی تو انہوں نے کہا توت کے پتے کو دیکھو! اس کا ایک ہی مزا ہے اسکو کیڑا کھاتاہے تو اس سے ریشم نکلتاہے شہد کی مکھی کھاتی ہے تو شہد بنتاہے بکری گائے چوپائے کھاتے ہیں تو مینگنی اور گوبر نکلتاہے اس کو ہرن کھاتے ہیں تو مشک بنتاہے حالانکہ چیز ایک ہی ہے یہ سب کس کی کاریگری ہے؟۔
انڈا
امام احمد بن حنبلؒ سے ایک مرتبہ وجود ِباری تعالیٰ پر دلیل طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا: سنو یہاں ایک مضبوط قلعہ ہے جس میں نہ کوئی دروازہ ہے نہ کوئی راستہ بلکہ سوراخ تک نہیں ۔ یہ قلعہ باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے۔ یہ قلعہ ہر طرف سے بند ہے۔ ہوا تک کا اس میں سےگزرنہیں ۔ اچانک اس قلعے کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں کانوں والا، نہایت خوبصورت پیاری بولی والا چلتا ہوا باہر نکل آتا ہے۔بتاؤ ! اس بنداورمحفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں ؟ اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالاتر اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں ؟
اس مثال کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو چاروں طرف سے بند ہوتا ہے مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اس میں چوزہ پیدا کردیتا ہے۔
اللہ کے وجود کی نشانیاں انسان کے اپنے نفس اور کائنات کے ذرے ذرے میں پائی جاتی ہیں:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور انکے نفس میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی بر حق ہے۔(حم السجدہ ۳۵)

جمادات ، نباتات،حیوانات، اور تخلیق انسانی میں نظم وترتیب، کمال خلاقی اور حسن وجمال کی تصویر کشی یہ سب خالق کائنات کے وجود کی نشانیاں ہیں ۔
تلخ وشور سمندرکے بیچ آب شیریں
یہ سمندر جس کے تلخ وشور پانی کے بیچ میٹھے پانی کا چشمہ پایاجاتاہے اور تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس پر قائم رہتاہے۔ یہ خالق کائنات کا تخلیقی شاہکار نہیں تو اور کیا ہے قرآن مجید میں ہے:
اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے، ایک لذیذ شیریں اور دوسرا تلخ وشور اور دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے،ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈمڈہونے سے روکے ہوئے ہے۔ ( الفرقان ۳۵)

کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ایک ہی سمندر میں لذیذ اور شور پانی بھی ہو اور دونوں آپس میں مل نہ سکے۔کبھی سوچا کہ کس ذات نے تلخ پانی کے بیچ میٹھے پانی کا چشمہ جاری کیا اور دونوں کے بیچ ایسی رکاوٹ ڈال دی کہ دونوں ملنے نہ پائے؟
آب باراں
بارش کے اس پانی پر غور کیجےے! جو مختلف جگہوں پر نہایت توازن کے ساتھ برستاہے۔ کون ہے جو سمندر کے اس تلخ وشور پانی میں سے انتہائی احتیاط کے ساتھ پانی کشید کرتاہے اور بادلوں کے پیٹھ پر سوار کرکے بالائی علاقوں تک پہنچادیتا ہے؟
فرمان باری تعالی ہے:اچھا یہ بتاؤکہ جس پانی کو تم پیتے ہو ۔کیا تم نے اسے بادلوں سے اتارا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں اگر ہم چاہیں تو اس میٹھے پانی کو کھاری بنادیں ۔پھر تم ہماری شکر گزاری کیوں نہیں کرتے ؟ ۔ ( الواقعہ ۸۶۔ ۰۷)

شمس وقمر
یہ چاند ہماری زمین کا سب سے قریب ترین سیارہ ہے کیونکہ اس کا فاصلہ ہماری زمین سے صرف دو لاکھ چالیس ہزار میل ہے۔سائنس دانوں کا بیان ہے کہ یہ سورج ہماری زمین سے نو کروڑ تیس لاکھ میل بلندی پر ہے وہاں تک خلائی راکٹ سے سفر کریں تو مستقل پرواز میں سات سال کی مدت درکار ہوگی ۔سائنس دانوں کا بیان ہے کہ سورج کا حجم اتنا زیادہ ہے کہ اگر وہ کھوکھلا ہوتا تو اس میں موجودہ زمین جیسی تیرہ لاکھ زمینیں سماجاتیں ۔ذرا سور ج کا حجم دیکھیں کہ اگر وہ کھوکھلا ہوتا تو اس میں موجودہ زمین جیسی تیرہ لاکھ زمینیں سماجاتیں ۔ دنیا کا قاعدہ ہے کہ صانع اپنی صنعت سے پہچاناجاتاہے۔اب آپ خودہی فیصلہ کریں کہ ایسی بھاری بھر کم چیز خلامیں کس کے کنٹرول سے قائم ہے ؟ آخر کس نے سورج کو زمین سے نو کروڑ تیرہ لاکھ کی بلندی پر پہنچایا ؟ کس کی قدرت سے سورج خلا میں معلق ہے ؟ اللہ تعالی نے سورہ حج میں اس کا جواب دے دیا ہے:
اللہ تعالی سماوی کائنات کو روکے ہوے ہے اور اپنے کنٹرول میں لئے ہوے ہے کہ وہ زمین پر گرنہ جائیں مگر جب اس کی اجازت ہوجاے گی تو زمین وآسمان باہم ٹکراجائیں گے، بیشک اللہ تعالی اپنے اس کنٹرول کے ذریعہ لوگوں پر رحمت وشفقت فرمارہاہے ۔ (سورة الحج ۵۶)

تخم
ایک جگہ اللہ تعالی نے انسان کو یاد دلایا:کیا تم نے دیکھاہے جو تم کاشت کرتے ہو کیا تم اگاتے ہو یا اسے اگانے والے ہم ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو اسے خاک کرڈالیں ، اور تم ہاتھ ملتے رہ جا، اور یوں کہو کہ ہم پہ تو تاوان پڑگیا بلکہ ہم تو محروم ہیں ۔ (سورہ الواقعہ ۳۶)

پتہ یہ چلا کہ کاشت کرنا انسان کے بس میں ہے لیکن کھیتی کا اگانا اور پودے کی افزائش انسان کے بس میں نہیں ۔
دود ھ کی تخلیق
حیوانات کی زندگی میں عقلمندوں کے لئے وجود باری تعالی کی بے شمار نشانیاں ہیں اگر دودھ کی پیدائش پر ہی غور کیا جائے تو انسان شسدر رہ جاتاہے۔ پیٹ میں ایک طرف ناپاک اور غلیظ گوبر، اور دوسری طرف بدبودار خون لیکن ان دونوں کے درمیان جو چیز پیداہورہی ہے وہ انتہائی صاف اور انسانی جسم کے لئے نہایت ضروری ہے۔قرآن مجید میں ہے:
یقینا تمہارے لئے چوپایوں میں عبرت ہے ان کے پیٹوں میں گوبراور خون کے درمیان سے خالص دودھ ہم تجھے پلاتے ہیں جو پینے والوں کےلئےخوشگوارہے۔(النحل:۶۶)

یہ سب کس ذات کی کاریگری ہے ؟ انسان کی بساط تو اتنی ہے کہ وہ ایک مکھی تک پیدا نہیں کرسکتا، پیدا تو کیا کرے گا اگر مکھی اس کے کھانے میں سے چھین لے جاے تو وہ بھی واپس نہیں لا سکتا۔
اے لوگو ! ایک مثال دی جاتی ہے ذرا غوسے سنو !جنہیں تم اللہ کے علاوہ دوسروں کو پکارتے ہو وہ مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے چاہے سارے اس کام کے لئے اکٹھےکیوں نہ ہوجائیں اور اگر کوئی مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ واپس بھی نہیں لے سکتے۔طلب کرنے والے اور طلب کےے جانے والے یعنی عابد ومعبود سب کمزور ہیں ۔ ( الحج ۲۷)

کائنات کا تنوع
اللہ کے وجود کی ایک عظیم نشانی کائنات کی تمام چیزوں میں تنوع کا پایاجاناہے دنیا کی ہر چیز چاہے وہ جمادات ہو ں یا نباتات ہوں یا حیوانات۔ ان میں سے ہر ایک اپنا ذاتی حسن لئے ہوئے ہے۔ جو اس سے پہلے کسی دوسری کو نصیب نہ ہوا۔ نباتات ہی کولیجئے ! ایک ہی زمین ہے، ایک ہی آب وہوا، ایک ہی موسم لیکن مختلف رنگوں ،مختلف ذائقوں اور مختلف شکلوں کی نباتات اُگ رہی ہیں ۔ یہی حال حیوانات کا ہے ہر علاقے میں مختلف قسم کے حیوانات پائے جاتے ہیں ، لیکن ہر حیوان کی شکل ایک
دوسرے سے الگ ہوتی ہے یہاں تک کہ ایک ہی حیوان سے پیداہونے والے بچے سب الگ الگ رنگ وروپ اور شکل کے ہوتے ہیں ۔
خود انسان کے وجود پر ہی نگاہ ڈال کر دیکھ لیجئے ! دنیا میں ہزاروں سال سے انسان پیدا ہوتے آرہے ہیں جن کامادہ تخلیق ایک ہی قسم کا ہے، بناوٹ میں بھی ترتیب پائی جاتی ہے اسکے باوجود ہر انسان الگ الگ رنگ وروپ لے کر پیدا ہوتاہے۔ آواز مختلف، بولیاں مختلف،زبانیں مختلف،گفتگوکاانداز مختلف ۔
پوری دنیا کی خا ک چھان ڈالیں لیکن ایک شکل وصورت کا انسان نہیں پاسکتے٬ آج فنگر پرنٹ انسان کی پہچان بنی ہوئی ہے ۔کیوں کہ پورے کائنات میں اس کے مشابہ کوئی انسان نہیں پایاجاتا ۔ آج انسان بڑی سی بڑی فیکٹری کا مالک ہو پھر بھی اس کی مصنوعات کے ڈیزائن محدود تعداد میں ہوتے ہیں ، اور بار بار انہیں ڈیزائن پرمصنوعات سانچے میں ڈھل کر تیار ہوتی ہیں ….ذرا سوچیں کہ آپ کے پاس جس نوعیت کا موبائل ہے اگر سروے کریں تو ہزاروں انسانوں کے پاس بالکل ویساہی موبائل پائیں گے۔
ایسی دو چیزوں کو نشان لگائے بغیر ایک ساتھ رکھ دیں تو ان میں پہچان کرنا مشکل ہے۔ لیکن قدرت کی فیکٹری کا کمال دیکھےے کہ اس کے سانچے میں ڈھلنے والی مصنوعات ایک دوسری سے بالکل الگ الگ ہیں ۔ یہ اس ذات کی وجودکی نشانی نہیں تو اور کیا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
اور اس کی نشانیوں میں آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور زبانوں اور رنگوں کا اختلاف بھی ہے بے شک اس میں جاننے والوں کے لئے اللہ کے وجود کی نشانیاں ہیں(الروم ۲۲)

یعنی زبانوں اور رنگوں کا اختلاف یونہی نہیں بلکہ اس میں قدرت کے وجود کی نشانی ہے۔فتبارک اللہ احسن الخالقین پس نہایت شان والاہے وہ اللہ جو تمام صناعوں سےبڑھ کر صناع ہے۔
تربیت ونشوونما
کسی ماں سے پوچھئے جس کے پیٹ میں بچہ ہے کیا اس کی غذا اور زندگی کی نشونما کا انتظام خود وہ کررہی ہے یا کوئی اور ذات کی یہ کاریگری ہے ….؟ پھر جب بچہ پیدا ہوتاہے٬ تو پیدا ہونے سے پہلے ماں کے پستان میں اس کی غذا پیدا کردی گئی ، ماں کے دل میں محبت ورحمت ڈال دی گئی، جس نے اسے اپنے سینے سے چمٹایا اور اس کی تربیت شروع کردی۔
انسان تو در کنار جانوروں کی زندگی میں بھی اسی تربیت کو وجود بخشا چنانچہ بچہ پیدا ہوتے ہی ماں کے پستانوں کو چوسنا شروع کردیتاہے۔ اسی طرح اللہ تعالی نے ہر جانور کو اس کی ضرورت کے مطابق ہدایت فرمائی چیونٹی کو سونگھنے کی دور رس قوت بخشی تاکہ وہ دور دور جاکر اپنی غذا حاصل کرسے۔ چیل اور عقارب کو تیز نگاہ عطا فرمائی تاکہ بلندی پر اڑتے ہوئے اپنا شکار دیکھ سکے۔ پھر شہد کی مکھیوں کو ایک خاص قسم کا گھر بنانے کی تربیت دی ایسا گھر کہ جسے دیکھ کر انسان عش عش کرنے لگتاہے پھر اسے ہزاروں میل دور جاجاکر شہد تلاشنے کی قوت عطا فرمائی ۔ سبحان اللہ یہ سب کس نے کیا ؟ہائے تعجب کیسے لوگ اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں اور کیسےمنکرین اس کا انکار کرتے ہیں جبکہ ہر حرکت وسکون میں اللہ کی ہستی پر کوئی نہ کوئی دلیل موجود ہے ہر چیز میں اللہ کے وجود پر نشانی ہے جو اس کے ایک ہونے کا پتا دیتی ہے ۔
اے لوگو ! اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں انہیں یاد تو کرو….کیا اللہ کے علاوہ کوئی اور پیدا کرنے والابھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق پہنچارہاہے؟ اسکےسواکوئی معبود بر حق نہیں ۔پس تم کہاں الٹے پھرے جاتے ہو ؟

निर्माता TAKHLIQ KAAR ( THE CREATOR )




تخلیق کار



تخلیق کار وہ ہوتا ہے جو کوئی ایسی چیز کو ایسے وجود میں لے آئے جس کو پہلے کسی نے نہ لایا ہو. دنیا میں جتنے بھی تخلیق کار ہے وہ جزوی طور پر کسی نہ کسی دوسرے کی تخلیق پر انحصار کرتے ہے. مثال کے طور جس نے کار کو تخلیق کیا ، وہ ایک ڈیزائن ،میٹریل ، میٹریل کی بناوٹ ، اسمبلنگ ، اور دوسرے پرزے کے تخلیق کار کی تخلیق پر انحصار کرتا ہے پھر جا کر وہ کار کی تخلیق کر پاتا ہے ، اگر فرض کرو کہ انسان کو تخلیق کرنے وہ مطلق تخلیق کار نہ جو جو ہر تخلیق کا خالق ہو تو انسان کا وجود جس کی بناوٹ انتہائی کومپلایکٹ ہے وہ کیسا تخلیق ہوتا ، اگر صرف انسان اس لاجک کی انتہا اور منطق کو لے کر چلا جائے جو ایک انسان کو کسی حد تک معقول لگتی ہو اور جس کی عقل سلیم دائرہ عقل میں سمجھ رکھتی ہو تو وہ انسان کی تخلیق ور نظر ثانی کرے تو وہ اپنی اس دنیا کے اصولوں منطق ، لاجک اور تھیوری کا احاطہ کر کے کیا نتیجہ اخذ کرے گا ؟
یہ بات بہت اہم کہ انسان ایک نطفہ سے ااندرونی اور بیرونی لحاظ سے تخلیق کیا ہے. جس کے انٹرنل آرگن اور ایکسٹرنل بناوٹ ایک ہی نطفہ سے تخلیق ہوئی. انسان کا ایک ایک باڈی پارٹ ایک پرزہ ایک ہی تسلسل سےتخلیق ہوتا ہے ، کیا کبھی آپ نے سے سنا کہ انسان کے پرزے پرزے ہو سکتے ہو جیسا کہ ایک کار کو بار بار کھولا اور جوڑا جا سکتا لیکن انسان کو کھولنے اور جوڑنے میں انسان کی موت واقع ہو سکتی ، ایک سرجن جب ہارٹ کی ٹرانسپلانٹ کرتا ہے تو وہ سب پہلے اس انسان کے سگنیچر لے لیتا کہ اگر آپریشن کامیاب نہ ہوا اور مر گیا یعنی ناکارہ ہو گیا تو اس کی ذمداری اس ڈاکٹر پر نہیں ہو گی ،اگر ڈاکٹر کی لاپرواہی کی بنا پر کچھ ہوتا ہے ، جیسا کہ غلط گروپ کا خوں ، آپریشن کے دوران قینچی بھول جانا ، غلط ٹانکے وغیرہ تو ڈاکٹر کو قصور وار مانا جاتا ہے. دنیا میں انسان کی تخلیق کے لئے کوئی ایسی صنعت نہیں جہاں پر انسان کے پارٹ بنتے ہو ، کیا آپ نے سنا کہ انسان کا بازو فلاں برانڈ کا ، فلاں انسان کی گردن چائنا کی ہے ، فلاں انسان کا معدہ جرمنی کا ہے؟ فلاں انسان کی دو آنکھیں ایل ای ڈی ہے جب ایسا کچھ بھی نہیں تو پھر کیا انسان کوئی ایسا مطلق تخلیق کار نہیں ہے ؟ اگر انسان کا کوئی تخلیق کار نہیں پھر اس انسان جو کہ منطق اور لاجک کا پیروکار تو پھر یہ انسان کی تخلیق کیوں نہیں کر سکتا ؟ افسوس کا مقام تو یہ کہ مادہ پرست نفسانی اور عقلی گھوڑے دوڑانے والا خود کے خالق سے نہ صرف غافل ہے بلکہ محض خیالی فریب میں مبتلا ہوکر اپنے ہی وجود کے تخلیق کار کا انکار کرتا ہے.
الله تعالی کی اس عجیب و غریب صنعت میں اس قدر حیرت انگیز نظم و نسق اور بے عیب تسلسل کو دیکھ کر انسانی عقل کمال حیرت و استعجاب میں کھو جاتی ہے اور فہم و قیاس عاجز اور دنگ رہ جاتے ہیں کس قدر مکمل اور محکم انتظام ہے ، کتنا قوی اور زبردست اہتمام ہےکسی جنگل میں جانور کے گوبر کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں پر کوئی جاندار تھا یا ہے ، کسی کے قدموں کے نشان سے یہ نشاندہی کی جاسکتی یا سے کوئی انسان گزرا ہے اگر کسی چوپائے کے نشان سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں سے کوئی چوپایہ کا گزر ہوا ہے تو پھر یہ کیسی منطق کہ زمین و آسمان نظم و نسق کیسے اپنے خالق اور صانع حق سبحان کا پتا نہ دے ؟ ایک کور چشم ، تاریکی پسند ، الو منش ملحد کس حساب انکار کرتا ہے کہ کوئی تخلیق کار نہیں؟ ایک ظلمت گزین چمگاڈر مثال بے دین کی ہٹ دھرمی اور کفر کی کیا حقیقت ہے . الٹا لٹک جانے سے یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ دنیا الٹی ہے . اگر دن کے وقت چمگاڈر کچھ نہ دیکھ سکے تو اسم میں چشمہ کا کیا قصور یہی مثال ایک بے دین کی ہے جو کہ اسم الله سے نا واقف ہے .
.فرض کرو ایک شخص بہت نیچے اتر کر تحت الثری کی تاریکوں میں سے ایک دھات کرٹکڑا اٹھا لاتا ہے اور بحر اوقیانوس کی گہرائیوں میں کئی میل نیچے غوطہ لگا کر وہاں سے بھی کوئی آبی خول نکال لاتا ہے اور تیسری دفعہ فضائے آسمان کی بلندیوں میں لاکھوں کروڑوں میل اوپر چڑھ کر کسی بہت دور کے سیارے سے ایک کنکر اٹھا لاتا ہے ، اب ان تینوں اشیاء کا موجودہ سائنس کی روشی میں بغور مطالعہ کیا جائے تو متفقہ فیصلہ یہ ہو گا کہ ان تینوں اشیاء کی اجزائے ترکیبی میں وہی ذرات برقیہ ہیں جو اشیائے کائنات کی تمام اشیاء کے تمام چھوٹے بڑے اجسام اور اجرام میں میں یکساں طور پر پائے جاتے ہیں ، ماہ سے ماہی ،ثریا سے سے ثریٰ تک کائنات علم کی تمام اشیاء کے اجزاۓ ترکیبی کی یہ وحدت صاف طور پر وحدت خالق کا ناقابل تردید مظاہرہ ہے یہ اشیاء خود اس بات کا ثبوت ظاہر کرتی ہے کہ ہمارا خالق ،رب العالمین اور معبود برحق ایک واحد مطلق ذات ہے.مصر کے میناروں سے نکلی ہوئی ہزاروں سال کی چیزیں مختلف زمانوں میں سنگبار ستاروں سے گرے ہوۓ دھات اور پتھر کے ٹکڑے ، بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں سے لائے ہوۓ کنکر اور سمندر کی گہرایوں سے نکالے ہوۓ آبی خول اور گھونگے آج کل دنیا کے مختلف عجائب خانوں میں موجود ہیں اور موجودہ سائنس اور کیمسٹری کی روشنی میں ان عناصر ترکیبی کا تجزیہ یہی نکلتا ہے کہ ان سب کی سخت ایک ہی قسم اور سب کے سب ایک ہی کاریگر کی بنائی ہوئی چیزیں ہیں . زمینوں اور آسمانوں میں خدائے تعالیٰ کی قدرت کی بے شماری نشانیاں موجود ہیں ، لیکن یہ غفل انسان تو دیکھ کر بھی اندیکھا کر دیتا ہے ، اپنی جاہلانہ مفروضوں میں خود قید کر رکھا ہے ، لیکن اس بے عقل اور نادان انسان کو اپنے آپ کی اورایک ذرہ بے مقدار تک کی تو خبر نہیں لیکن الله تعالیٰ کے مثل اور بے مثال اور لم یزل والا یزال ذات کی کنہہ اور حقیقت میں عقلی گھوڑے دوڑا رہا ہے ،،، انسان خدا کی نسبت مثالیں تو پیش کرتا ہے لیکن اسے اپنی خلقت اور پیدائش تک کا پتا نہیں .
ملحد، دہر یعنی نیچریوں کو کارخانہ کائنات چلانے کے لئے ایک علت العلل اور فعال کل طاقت کے ماننے کے سوا چارہ نہیں، لیکن یہ کسی طرح بھی قرین قیاس نہیں کہ مکوں کائنات اور خالق موجودات ایک بے جان مادہ ، بے حس نیچر اور بے ادارک و با شعورہیولے ہو . ایسے منظم ، باقاعدہ اور علم و حکمت پر مبنی کارخانہ قدرت والی ذات کو حیات ، قدرت ، ارادہ ،علم، سمع ،بصر اور کلام وغیرہ صفات ذاتی سے متصف ہونا لازمی اور ضروری ہے. بے جان ہیولی ، بے حس ایتھر اور بے شعور مادے کا یہ کام ہر گز نہیں ہو سکتا کہ وہ دنیا بنائے اور چلائے .
دہریوں اور نیچریوں کو ایک الگ بے وقوفوں کی بستی بسانی چاہیے ، اور کسی بے حس ،بے جاں بیوقوف و بے شعور دہریہ آدمی کو اس آبادی کا مختار ، کارکن منتظم مقرر کر کے دیکھ لے ،پتا چل جائے گا کہ کیا ارتقا پاؤ گے ، فیس بک پر ان دھریوں کی مثال ایسے جیسے کسی پاگل خانے میں کچھ پاگل اکھٹے ہو کر ایک دوسرے کو اپنے پاگل ہونے کی کہانی سنا رہے ہو. یا خود کو عاقل سمجھنے والے کسی پاگل خانے میں جا کر بے شعوری کا تھوڑا سا نظارہ کر لے اور دیکھ لے کہ کیا بے شعوری گل کھلا رہی ہیں ،، اگر وہاں صاحب عقل اور ذی شعور انسان نگرانی اور حفاظت کرنے والا نہ ہو دیکھو پھر پاگل خانے میں کیا طوفان بدتمیزی پربا ہوتا ہے ، تو پھر کیا یہ دنیا بنا کس نگران کی چل رہی ؟ اتنی منظم اور حکمت کے ساتھ .فرض کرو کہ ایک بڑی جھیل ہو اور اس میں ایک کشتی چھوڑ دی جائے ، بغیر کس چلانے والے کہ کیا وہ کشتی خود بخود ایک مقررہ وقت پر ایک مخصوص مقام پر آیا کرے گی ، تو اس دہری نے جواب دیا یہ تو ہر گز ممکن نہیں ، تو آپ نے فرمایا کہ فضائے آسمانی کی اس بڑی وسیع نیلگوں جھیل میں سورج اور چاند کیوں کر بغیر چلانے والے کے ابتدا سے اب تک روز مرہ وقت مقرر پر ایک متعین مقام سے نکل کر ایک خاص مستقر اور مخصوص مقام پر غروب ہوتے ہیں . ؟
وہ دن کے اندر رات کو اور رات کے اندر دن کو پروتا ہوا لے آتا ہے چاند اور سورج کو اُس نے مسخر کر رکھا ہے یہ سب کچھ ایک وقت مقرر تک چلے جا رہا ہے وہی اللہ (جس کے یہ سارے کام ہیں) تمہارا رب ہے بادشاہی اسی کی ہے اُسے چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتے ہو وہ ایک پرکاہ کے مالک بھی نہیں ہیں
سخت سے سخت ملحد بے دین بھی اگر اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر اور کس وقت انصاف کی عینک چڑھا کر اپنے ضمیر کی طرف جھانکے اور غور فکر کرے کہ جب میں ایک بولتا چالتا ، دیکھتا بھالتا اور سوچتا سمجھتا مخلوق موجود ہوں تو ایک واجب الوجود خالق کل ہستی کیوں موجود نہیں ، تعجب ہے کہ زرہ بے مقدار کو اپنی ہستی کا تو اقرار ہے لیکن اس آفتاب المتاب کی نفی اور انکارہےقرآن میں ہے وہ تمھارے نفسوں کے اندر ہے لیکن تم اسے نہیں دیکھتے اور حدیث میں ہے جس شخص نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا .
یہ بے دین ، بے حس ملحد اپنے الحاد کی تائید میں دلیل پیش کرتے ہے کہ جب الله تعالیٰ کا نہ تو ہمیں کوئی وجود نظر آتا ہے نہ اس کی ذات کی کنہ اور حقیقت سمجھ آتی ہے اور نہ اسکی صریح صفت اور نہ اعلانیہ فعل اور نہ ٹھوس عمل دنیا میں نظر آتا ہے تو ہم کیونکر جانیں اور یقین کریں کہ وہ ذات موجود ہے ، تو کیا کسی چیز کا سمجھ نا آنے اور معلوم اور محوس نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتی کہ وہ سرے سے موجود ہی نہیں. اگر نیوٹن نے ایپل کو گرتے نہ دیکھا ہوتا تو کیا گریوٹی تھی ہی نہیں ؟ کیا عمل کا رد عمل سرے سے موجود ہی نہیں تھا .کیا رگڑ کا قانون سرے سے موجود ہی نہیں تھا ؟ زندگی اور موت کا کیسے انکار کرو گے ؟ عقل سلیم نے موجودات کا سلسلہ محسوسات اور معلومات تک محدود نہیں رکھا . بلکہ جو کچھ بنی نوع انسان کو اپنی عملی اور ذہنی کدو کاوش کی بدولت آج تک معلوم اور محسوس ہوا ہے وہ نا معلوم غیبی کائنات کا ایک نا چیز ذرے سے بھی کم ہے
ممکن ہے سکھ میں بھول جائیں اطفال
لیکن دکھ میں انہیں ماں ہی یاد آتی ہے

Saturday, August 27, 2016

1.ईश्वर के अस्तित्व के दलाइल ( wajud baari taala) urdu post



وجود باری تعالی یعنی ہستی صانع عالم کے دلائل عقلیہ



پہلی دلیل — دلیل صنعت


تمام عقلاء اس بات پر متفق ہیں کے صنعت سے صانع(بنانے والا) کی خبر ملتی ہے مصنوع (جس کو بنایا گیا)اور صنعت (factory)کو دیکھ کر عقل مجبور ہوتی ہے کے صانع کا اقرار کرے اور دہریئے(atheist) اور لا مذہب لوگ بھی اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کے فعل کے لئے فاعل کا ہونا ضروری ہے . پس جبکہ ایک بلند عمارت اور ایک بڑا قلعہ اور اونچے مینار کو اور ایک دریا کے پل کو دیکھ کر عقل یہ یقین کر لیتی ہے کہ اس عمارت کا بنانے والا کوئی ضرور ہے اور اس منار اور پل کا بنانے والا کوئی بڑا ہی ماہر انجینیر ہے تو کیا آسمان اور زمین کی اعلیٰ ترین عمارت اور اسکی عجیب و غریب صنعت اور اسکی باقائدگی اور حسن ترتیب کو دیکھ کر ایک اعلیٰ ترین صانع کا کیوں اقرار نہیں کیا جاتا.
ایک تخت کو دیکھتے ہی یہ یقین آجاتا ہے کہ کسی کاریگر نے اس ہئیت اور وضع سے اس کو بنایا ہے کیونکہ تخت کا خود بخود تیّار ہوجانا اور خاص ترتیب کے ساتھ لوہے کی کیلوں کا اس میں جڑ جانا محال ہے کسی درخت کے تختوں اور لوہے کی کیلوں میں یہ قدرت نہیں کہ اس ترتیب سے خود بخود جڑ جائیں.
ایک دہری اور سائنس دان ایک معمولی گہڑی اور گھنٹہ کو دیکھ کر یہ اقرار کرتا ہے کہ یہ کسی بڑے ہی ماہر کی ایجاد ہے کے جو قوائد ہندسہ(digits) اور کل سازی کے اصول سے پورا واقف ہے اور یہ یقین کر لیتا ہے کے ضرور بالضرور اس گھڑی کا کوئی بنانے والا ہے کہ جس نے عجیب انداز سے اسکے پرزوں کو مراتب کیا ہے اور جس کے ذریعہ اوقات کا بخوبی پتہ چلتا ہے حالانکہ وہ یہ امر بخوبی جانتا ہے کہ دنیا کی گھڑیاں اور گھنٹے وقت بتلانے میں بسا اوقات غلطی کرتے ہیں مگر چاند سورج جو کبھی طلوع اور غروب میں غلطی نہیں کرتے اور جنکے ذریعہ سارے عالم کا نظام حیات اور نظام اوقات چل رہا ہے ،یہ دہری چاند اور سورج کے صانع کا اقرار نہیں کرتا اگر اس موقعہ پر کوئی یہ کہنے لگے کہ اس گھڑی کو ایک ایسے شخص نے بنایا ہے جو اندھا اور بھرا اور گونگا ہے اور ناسمجھ اور بے خبر اور علم ہندسہ سے بے بہرہ اور کل سازی کے اصول سے ناواقف ہے تو کیا یہی فلسفی اور سائنسدان اس کہنے والے کو پرلے درجہ کا احمق نہ بتلائےگا ؟ غرض یہ کہ جہاں صنعت اور کاریگری پائی جائیگی صانع کا تصور اور اقرار ضرور کرنا پڑےگا.
بلکہ
صنعت کو دیکھ کر صرف صانع کا یقین ہی نہیں ہوتا بلکہ اجمالی طور پر صانع کا مرتبہ بھی معلوم ہو جاتا ہے پس کیا آسمان و زمین کی اعلی ترین صنعت کو دیکھ کر ہم کو یہ یقین نہیں ہوگا کہ اس کا صانع بھی بڑا ہی اعلی اور ارفع اور اعظم اور اجل اور عقل سے بالا اور برتر ہے کہ جس کے صنائع اور بدائع کے سمجھنے سے عقلاء عالم کی عقلیں قاصر اور عاجز ہیں.
یہ منکرین خدا جب بازار میں بوٹ جوتا خریدنے جاتے ہیں تو دکاندار سے پوچھتے ہیں کے یہ بوٹ کس کارخانہ کا بنا ہے تو وہ اگر جواب میں یہ کہے کہ یہ بوٹ کسی کارخانہ میں نہیں بنا ہے بلکہ یہ بوٹ خود مادہ اور ایتھر کی حرکت سے آپ کے پیر کے مطابق تیار ہوگیا ہے اور خود بخود حرکت کرکے میری اس دکان پر آگیا ہے تو منکر خدا صاحب دکاندارکے اس جواب کے متعلق کیا کہیں گے، غور کرلیں اور بتلائیں کہ کیا سمجھ میں آیا اور اپنے اوپر منطبق کریں.
اثبات صانع کی دوسری دلیل— وجود بعد العدم
ہر ذی عقل کو یہ بات معلوم ہے کہ میں ایک وقت میں معدوم(نا پید،فناکیا گیا ) تھا اور ایک طویل وعریض عدم(نیستی۔نہ ہونا۔ناپیدی) کے بعد موجود ہوا ہوں اور جو چیز عدم کے بعد وجود میں آئے اس کے واسطے کوئی پیدا کرنے والا اور اس کو عدم سے وجود میں لانے والا چاہئے اور یہ بھی معلوم ہے کہ میرا خالق نہ میرا نفس ہے اور نہ میرے ماں باپ اور نہ میرے جنس اس لئے کہ وہ سب میری طرح عاجز ہیں کسی میں ایک ناخن اور بال پیدا کرنے کی بھی قدرت نہیں اور نہ آسمان اور زمین اور نہ یہ عناصر اور نہ کواکب اور نہ یہ فصول میرے خالق ہیں اس لئے کہ یہ چیزیں بے شعور اور بے ادراک (بے عقل) ہیں اور ہر وقت متغیر (بدلتی) اور متبدل ہوتی رہتی ہیں ان میں یہ صلاحیت کہاں کہ ایک ذی علم اور ذی فہم انسان کو پیدا کرسکیں پس معلوم ہوا کہ میرا خالق کوئی ایسی چیز ہے کہ جو لاچارگی اور حدوث اور تغیر و تبدل اور عیب اور نقسان سے پاک ہے وہی ہمارا خدا اور معبود ہے۔
اثبات صانع کی تیسری دلیل—- تغیراتِ عَالَم
موجودات عالم پر ایک نظر ڈالیے ہر ایک چھوٹی اور بڑی چیز حیوانات یا نباتات یا جمادات مفردات یا مرکبات جس پر نظر ڈالیے ہر لمحہ اس میں تغیر و تبدل ہے اور کون و فساد اور موت و حیات کا ایک عظیم انقلاب برپا ہے جو بآواز بلند پکار رہا ہے کہ یہ تمام متغیر ہونے والی (بدلنے والی) چیزیں حادث ہیں اپنی ذات سے کوئی بھی قدیم نہیں۔ کسی عظیم ترین ہستی کے زیر ِفرمان ہیں کہ وہ جس طرح چاہتا ہے ان کہ پلٹییں دیتا رہتا ہے اور طرح طرح سے ان کہونچاتا رہتا ہے اور زیر و زبر کرتا ہے پس جس ذات بابرکت کے ہاتھ میں ان تغیرات اور انقلابات کی باگ ہے وہی ان سب کا خالق و موجد ہے۔
منکیرین ِ خدا یہ کہتے ہیں کہ عالم کے یہ تغیرات اور تبدلات محض قانون طبعی اور قانون فطری کے تحت چل رہے ہیں ،اہل اسلام یہ کہتے ہیں کہ قانون طبعی اور قانون فطری صرف ایک آلہ ہے جو کسی با اختیار کاریگر کا محتاج ہے اس کاریگر کو ہم خدا کہتے ہیں جو اس آلہ کا محرک ہے اور وہی اس آلہ کا خالق بھی ہے وہی اپنے اختیار سے اس عجیب و غریب نظام کو چلا رہا ہے محض آلہ کو کاریگر سمجھ لینا اور یہ گمان کرلیتا کہ اس آلہ اور بسولہ(لکڑی چھیلنے کا آلہ) ہی نے تخت اور الماریاں تیار کردی ہیں یہ ایک خیال خام ہے اور جو شخص یہ گمان کرے کہ بغیر کاریگر کے محض آلہ کی فطری اور طبعی حرکت سے یہ الماری تیار ہوگئی ہے تو وہ بلا شبہ دیوانہ ہے۔
اثبات صانع کی چوتھی دلیل-امکانِ اشیاء
واجب الوجود کی ہستی کی ایک دلیل یہ ہے کہ عالم میں جس قدر اشیاء موجود ہیں وہ سب کی ممکنات ہیں یعنی ان کا ہونا اور نہ ہونا وجود اور عدم ہستی اور نیستی دونوں برابر کے درجہ میں ہیں نہ انکا وجود ضروری ہے اور نہ ان کا عدم ضروری ہے اور جو چیز بذاتہ (خود سے)ممکن الوجود ہو یعنی اپنی ذات کے اعتبار سے اسکی ہستی اور نیستی برابر ہو اس کے وجود اور ہستی کے لئے عقلاً کسی مرجح (افضل) اور موجد(بانی) کا وجود ضروری ہے کیوں کہ کوئی چیز خود بخود یا محض اتفاق وقت سے بلا سبب عدم سے نکل کر وجود میں نہیں آسکتی جب تک اس کے وجود کے لئے کوئی سبب اور موجد نہ ہو کہ جو اس کو ترجیح دیکر اس کو عدم سے نکال کر وجود میں لائے ورنہ ترجیح بلا مرجح لازم آئے گی جو بالبداہت محال ہے اور ہر ذی ہوش کے نزدیک ظاہر البطلان ہے کیوں کہ ممکن اپنی ذات اور ماہیت (کیفیت)کے لحاظ سے نہ موجود ہے اور نہ معدوم ۔ وجود اور عدم دونوں اس کے حق میں یکساں ہیں پس ضرورت اس کی ہے کہ کوئی ذات ایسی ہو کہ جو اس کو عدم ازلی (ہمیشہ کی نیستی/نہ ہونے)کے پنجرے سے نکال کر وجود کے دلفریب میدان میں لے آئے پس جس ذات نے اس عالم امکانی کو عدم سے نکال کر وجود کا خلعت(پوشاک) پہنایا اور اس کے وجود کو اس کے عدم پر ترجیح دی وہی ذات واجب الوجود ہے جس کو اہل اسلام خدا کی ہستی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ؂
یہ بارونق جو ہے ہستی کا گلزار :: عدم سے کر دیا اس نے نمودار
اور واجب الوجود وہ ہے کہ جس کا وجود ضروری ہو اور ممکنات کے قبیل سے نہ ہو ورنہ ، خفتہ را خفتہ کے کند بیدار(خفتہ – سویا ہوا، کند – سست کاہل) کی مثل صادق ہوگی کیوں کہ اگر وہ خود ممکن ہوگا تو اس کا وجود اور عدم اس کے حق میں یکساں ہوگا تو وہ دوسری چیز کے لئے وہ کیوں کر علت اور مرجح (افضل) بن سکے گا۔ پس جو واجب الوجود اور خود بخود موجود ہو اور دوسرے کے لئے واجب الوجود ہو اسی کو ہم خدا کہتے ہیں۔ خدا کو خدا اس لئے کہتے ہیں کہ وہ خود بخود ہے۔
اثبات صانع کی پانچویں دلیل —- فناء و زوال
عالم کی جس چیز کو بھی دیکھو تو اس کا وجود پائدار نہیں ،ایک زمانہ تھا کو وہ پردہ عدم میں مستور تھی اور پھر اسی طرح ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جس میں اس کا نام صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔؂
رہیں گے پھول نہ پھولوں میں رنگ و بو باقی :: رہے گا اے میرے معبود ایک تو ہی باقی
یہ موت اور حیات کی کشمکش اور وجود و عدم کی آمد و رفت بآواز بلند یہ پکار رہی ہے کہ ہمارا یہ وجود ہمارا خانہ زاد اور خود ساختہ نہیں بلکہ مستعار اور کسی دوسرے کی عطا ہے جیسے زمیں پر دھوپ اور روشنی کی آمد و رفت اس امر کی دلیل ہے کہ یہ روشنی زمین کی ذاتی نہیں بلکہ عطیئہ آفتاب ہے کہ حرکت طلوعی میں آفتاب اس کو عطا کرتا ہے اور حرکت غروبی میں اس کو واپس لےلیتا ہے اسی طرح ممکنات اور کائنات کا وجود اور عدم جس ذات کے ہاتھ میں ہے وہی واجب الوجود ہے جس کا وجود ذاتی ہے اسی کو ہم مسلمان اللہ اور خدا کہتے ہیں۔
اثبات صانع کی چھٹی دلیل —- اختلاف صفات و کیفیات
زمین سے لے کر آسمان تک عالم کے تمام اجسام جسمیت کے لحاظ سے برابر ہیں اور جب چیزیں حقیقت اور ماہیت سے برابر ہوں تو جو کچھ ایک چیز کے لئے روا ہے وہی دوسرے کے لئے بھی روا ہے جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اس سے معلوم ہوا کہ آسمان جو بلند ہے اس کا نشیب اور پستی میں ہونا بھی روا ہے اور زمین جو پستی میں ہے اس کا بلندی میں ہونا بھی روا ہے اور آگ جو گرم اور خشک ہے اس کا سرد اور تر ہونا بھی روا ہے اور پانی جو سرد اور تر ہے اس کا گرم اور خشک ہونا بھی روا ہے پس جب اجسام میں تمام صفات اور کیفیات جائز اور روا ہیں تو پھر ہر جسم کے لئے ایک خاص معیّن کیفیت اور معیّن شکل اور معیّن احاطہ اور معیّن مقدار کے لئے کوئی مؤثر مدبّر اور مقدّر مقتدر چاہئے کہ جس نے ان تمام جائز اور ممکن صفات اور کیفیات میں سے ہر جسم کو ایک خاص صفت اور خاص کمیّت اور خاص کیفیت اور خاص ہئیت کے ساتھ معیّن اور مخصوص کیا ،کیوں کہ ہر جائز اور ممکن کے لئے کسی مرجح (افضل) کا ہونا ضروری ہے کہ جو کسی ایک جانب کو ترجیح دے ورنہ ترجیح بلا مرجح لازم آئیگی پس وہی مؤثر مدبر اور مقدّر مقتدر اس عالم کا رب ہے۔
اثبات صانع کی ساتویں دلیل —- دلیل حرکت
علامہ احمد بن مسکویہ الفوز الاصغر میں فرماتے ہیں کہ عالم کی جس چیز پر بھی نظر ڈالو وہ حرکا سے خالی نہیں اور حرکت کی چھ قسمیں ہیں
(۱)حرکتِ کَون
(۲)حرکت فساد
(۳)حرکتِ نمو
(۴)حرکت ذبول
(۵)حرکت استحالہ
(۶)حرکت نقل۔
اس لیے حرکت ایک قسم کے تبدل یا نقل کو کہتے ہیں اگر ایک شئی عدم سے وجود کی طرف حرکت کرے تو یہ حرکت کَون ہے اور اگر خرابی کی طرف حرکت ہو تو یہ حرکت فساد ہے اور اگر ایک کیفیت اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف حرکت ہو تو یہ حرکت استحالہ ہے اور اگر کمی سے زیادتی کی طرف ہو جیسے بچّہ کا بڑا ہوجانا اور پودہ کا درخت ہو جانا تو یہ حرکت نمو ہے اور افر زیادتی سے کمی کی طرف حرکت ہو جیسے کسی موٹے آدمی کا دبلا ہو جانا تو یہ حرکت ذبول ہے اور اگر ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف حرکت ہو تو یہ حرکت نقل ہے اس کی دو قسمیں ہیں مستقیمہ اور مستدیرہ غرض یہ کہ عالم کے تمام عناصر اور جمادات اور نباتات اور حیوانات سب کے سب حرکت میں ہیں اور ان میں کسی شئی کی حرکت اس کی ذاتی نہیں اور کوئی چیز اپنی ذات سے متحرک نہیں اور عقلاً ہر متحرک کیلئے یہ ضروری ہے کہ اس کے علاوہ اس کے لئے کوئی محرِّک ہو پس ضروری ہے کہ تمام اشیاء عالم کا بھی کوئی محرک ہو جس کی وجہ سے تمام اشیاء عالم حرکت میں آرہی ہیں پس وہ ذات جس پر کائینات عالم کی حرکت کا سلسلہ ختم ہوتا ہے وہی خدا ہے جو اس سارے عالم کو چلا رہا ہے اور طرح طرح حرکت دے رہا ہے جن کے انواع و اقسام کے ادراک سے عقلاء عالم کی عقلیں قاصر اور عاجز اور درماندہ ہیں۔
اثبات صانع کی آتھویں دلیل— حسن ترتیب
امام رازی فرماتے ہیں کہ ہستی صانع کی ایک دلیل یہ ہے کہ آسمان اور ستارے اور نباتات اور جمادات اور حیوانات کی ترتیب ہم اس طرح پر پاتے ہیں کہ حکمت کی نشانیاں اس میں ظاہر ہیں اور جس قدر زیادہ غور و فکر کرتے ہیں اسی قدر یہ نشانیاں زیادہ معلوم ہوتی ہیں جیسا کہ ہم آئیندہ فصلوں (پوسٹس) میں اس کی شرح اور تفصیل کرینگے اور بداہت عقل سے یہ جانتے ہیں کہ ایسی عجیب و غریب نشانیوں کا ظہور محض اتفاقی طور پر محال ہے اس لئے ضروری ہوا کہ ایسے کامل اور قادر حکیم کے وجود کا اقرار کیا جائے جسے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ان عجیب و غریب چیزوں کو عالم علوی اور سفلی میں ظاہر کیا ہے۔
قدرت کا نظام ہے بتاتا :: تو صانع و منتظم ہے سب کا
اثبات صانع کی نویں دلیل— عاجزی اور درماندگی
ہر ذی ہوش اس امر کو بداہت عقل سے جانتا ہے کہ انسان جب کسی بلا اور مصیبت میں گرفتار ہوجاتا ہے اور اسباب اور وسائل اسکو جواب دے دیتے ہیں تو اس وقت اس کا دل بے اختیار عاجزی اور زاری کرنے لگتا ہے اور کسی زبردست قدرت والی ہستی سے مدد مانگتا ہے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ہر شخص فطری طور پر ہی جانتا ہے کہ کہئی دافع البلیات اور مجیب الداعوات اور حافظ و ناصر اور دستگیر ضرور ہے جس کو انسان بیچارگی کی حالت میں بے اختیار اپنی دستگیری کے لئے پکارتا ہے اور اس کے روبرو گریہ و زاری کرتا ہے اور یہ امید رکھتا ہے کہ وہ دستگیر میری مصیبت کو ٹال دے گا پس وہی دستگیر ہمارے نزدیک خدا ہے جو سارے عالم کی سنتا ہے اور دستگیری کرتا ہے ؂
جب لیتے ہیں گھیر تیری قدرت کے ظہور
منکر بھی پکار اٹھتے ہیں تجھکو ضرور
اثبات صانع کی دسویں دلیل— ذلّت و خواری ِ اشیاء
اس کارخانۂ عالم کی جس چیز پر بھی نظر ڈالیے تو ذلّت و خواری اوراحتیاج ہی ٹپکتی ہوئی نظر آئےگی جس سے بالبداہت یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ سارا کارخانہ محض بخت و اتفاق سے پیدا نہیں ہوا بلکہ کسی بڑے عزت و حکمت والے کے سامنے ذلیل و خوار اور اس کے حکم کا فرمانبردار ہے۔
آسمان، چھاند، سورج ستاروں کو دیکھے کہ ایک حال پر قرار نہیں کبھی عروج اور کبھی نزول کبھی طلوع اور کبھی غروب کبھی نور اور کبھی گہن ہے ۔ آگ کو دیکھئے کہ تھامے نہیں تھمتی ،ہوا کا حال یہ ہے کہ کبھی حرکت اور کبھی سکون اور حرکت بھی ہے تو کبھی شمال اور کبھی جنوب کی جانب اور کبھی مشرق اور کبھی مغرب کی جانب ہے۔ غرض یہ کہ ہوا ماری ماری پھرتی ہے اور پانی کا کرہ ہوا کے جھونکوں سے کہیں کا کہیں نکلا چلا جاتا ہے زمین کو دیکھے کہ اس کی پستی اور لاچاری اس درجہ میں ہے کہ مخلوق اس کہ جس طرح چاہتی ہے پامال کرتی ہے کوئی بول و براز سے اسے آلودہ کر رہا ہے اوع کوئی لید اور گوبر سے اس کو گندہ کر رہا ہے کوئی اس پر دوڑ رہا ہے اور کوئی اسے کھود رہا ہے مگر زمیں سر نہیں ہلا سکتی، حیوانات کو دیکھئے کہ وہ کس طتح لاچار ہیں کوئی ان پر سوار ہو رہا ہے اور کوئی ان پر بوجھ لاد رہا ہے اورکوئی ان کو ذبح کر رہا ہے اور تمام مخلوقات میں سب سے افضل یہ نوع انسانی ہے وہ ذلت اور احتیاج میں تمام مخلوقات سے بڑھا ہوا ہے۔ بھوک اور پیاس اور بول و براز صحت و مرض ، گرمی و سردی اور قسم قسم کی ضرورتوں اور خواہشوں نے اس کو نچا رکھا ہے حیوانات تو فقط کھانے اور پینے ہی میں محتاج ہیں اور حضرت انسان کے پیچھے تو حاجتوں کا ایک لشکر لگا ہوا ہے انسان کو کبڑا بھی چاہئے مکان بھی چاہئے گھوڑا گاڑی بھی چاہئے ، عزت اور منصب اور جاگیر بھی چاہئے بیاہ شادی بھی چاہئے بیماری کی حالت میں طبیب اور ڈاکڑ بھی چاہئے بغیر ان کے زندگی دوبھر ہے اور حیوانات کو ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔ حیوان کو نہ لباس کی ضرورت ہے اور نہ بیماری میں لسہ ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ حیوان بغیر کسی میڈیکل کالج میں تعلیم پائے خود بخود اپنی بیماری کے مناسب جڑی بوٹیوں کو کھا کر شفایاب ہوجاتا ہے پس جب انسان کہ جو باتفاق اہل عقل اشرف المخلوقات ہے اس قدر ذلیل اور حاجت مند اور محکوم ٹھرا کہ ہر طرگ سے حاجتیں اور ضرورتیں اس کی گردن پکڑے ہوئے ہیں اور باقی عالم کی ذلت و خواری کا حال آسمان سے لیکر زمین تک محمل طور پر معلوم ہی ہوچکا تو پھر کیوں کر عقل باور کرسکتی ہے کہ یہ سارا کارخانہ خود بخود چل رہا ہے کائینات عالم کی اس ذلت و خواری اور مجبوریو لاچاری کو دیکھ کر بے اختیار دل میں آتا ہے کہ ان کے سر پر کوئی ایسا زبردست حاکم ہے جو ان سے ہر دم مثل قیدیوں کے بیگاریں لیتا ہے تاکہ یہ مغرور نہ ہوجائیں اور کسی کو ان کی بے نیازی کا گمان نہ ہو بیشک یہ قید میں رکھنے والی زبردست اور غالب ہستی واجب الوجوب اور الہ العالمین کی ہے۔
ایں جہاں آئینہ دارروئے تو :: ذرہ ذرہ رہ نماید سوئے تو